۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
سید ساجد علی نقوی

حوزہ/علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، کہنے کو عوام ملک کی تقدیر کے مالک اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں مگر ایسا محسوس ہورہاہے جیسے ان مالکوں کے پاس اختیار تو دور کی بات، حال نانِ شبینہ سے بھی آگے ، یہ ملک صحیح معنوں میں فلاحی جمہوری ریاست کےلئے معرض وجود میں آیا تھا، افسوس یہاں دلکش نعروں کے سوا عوام کو کچھ حاصل نہ ہوسکا بلکہ بنیادی آزادیاں تک سلب کرلی گئیں.

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، کہنے کو عوام ملک کی تقدیر کے مالک اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں مگر ایسا محسوس ہورہاہے جیسے ان مالکوں کے پاس اختیار تو دور کی بات، حال نانِ شبینہ سے بھی آگے ، یہ ملک صحیح معنوں میں فلاحی جمہوری ریاست کےلئے معرض وجود میں آیا تھا، افسوس یہاں دلکش نعروں کے سوا عوام کو کچھ حاصل نہ ہوسکا بلکہ بنیادی آزادیاں تک سلب کرلی گئیں، کہنے کی حد تک آئین وقانون موجود مگر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا، جنہیں عوام نے امیدوں کے ساتھ منتخب کیا وہ بھی بے بسی میں ٹام ٹوئیاںمارنے کے سوا کچھ نہ کرسکے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ کہنے کو عوام اس ملک کے مالک و مختار ،حق حکمرانی سے طرز زندگانی تک سب کچھ انہی کے اختیار میں ہے مگر افسوس جس عزم کے ساتھ تحریک آزادی اور پھر 47ءکے وقت آگے بڑھاگیا تھا وہ 50ءکی دہائی میں ہی کہیں دبادیاگیااورگھٹن زدہ ماحول پیدا کرتے ہوئے شہری آزادیاں تک سلب کرلی گئیں، آج اشیائے خورونوش سے لے کر بنیادی سہولیات و حقوق تک عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، کہنے کو ملک کے مالک و مختار عوام کی حالت نانِ شبینہ سے بھی آگے جاپہنچی ہے، ایسی حالت میں ملک کی 70فیصد سے زائد آبادی ذہنی انتشار میں مبتلا ہے، جس ملک کو فلاحی ریاست کی تجربہ گاہ بنانا تھا اسے فلاحی قوانین کی بجائے جبر، آمریت، سرمایہ داریت اور افسوس کے ساتھ سامراجیت کی تجربہ گاہ بنادیاگیا ، اقتدار کو طول دینے کےلئے کبھی اسلامی نظام کانعرہ لگادیاگیا اور کبھی عوامی حقوق کی بات دہرائی گئی لیکن عوام کو دلکش نعروں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، کہنے کی حد تک آئین و قانون موجود مگر عملدرآمد کا شدید فقدان، عوام مقننہ و منتظمہ و عدلیہ کی طرف دیکھتے رہے مگر ان کی حالت بدلنے پر کوئی توجہ نہ دی گئی، یہا ں تک کہ جنہیں عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ منتخب کیا، وہ بھی بے بسی میں ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہے، جب صورتحال اس نہج پر پہنچ جائے تویہ تشویشناک امرکی نشاندہی کرتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت سیاست کی بنیاد مگر سیاسی اختلاف کو ذاتی عناد میں تبدیل کردیاگیا، اسی ذاتی عنا د پر عوام میں دوریاں پیدا کرکے اصل مسائل سے توجہ ہٹادی گئی جس کی وجہ سے ایسے مسائل اور خرابیوں نے جنم لیا جو اب لاکھ جتن کرنے کے باوجود سلجھنے کا نام نہیں لیتیں، اب بھی وقت ہے کہ عوا م کا نام لینے والے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل حل کریں مہنگائی بے روزگاری اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے اقدامات کر کے عوام کو ریلیف دیں اور گھٹن زدہ ماحول کو ختم کرنے کےلئے شہری آزادیوں کو مکمل بحال، آئین و قانون پر صحیح معنوں میں عملدرآمد یقینی بنائیں اسی سے ذہنی انتشار کے خاتمے میں مدد ملے گی اور ایک نئی امید جاگے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .